ہم ایسے مَرگ طلب بھی نہ تھے Ù…Ø+بت میں

ہم ایسے مَرگ طلب بھی نہ تھے Ù…Ø+بت میں
کہ جلتی آگ کے دریا میں بے خطر جاتے
(یقین جان‘ مری جاں کہ ہم ٹھہر جاتے)
تمہاری آنکھ کے آنسو تھے‘ سیلِ آب نہ تھا
چھلک بھی جاتے اگر‘ رزقِ خاک ہو جاتے
(مثال قطرۂ شبنم ‘ چمکتے‘ کھو جاتے)
رہا وہ Ø+رفِ وفا جس Ú©ÛŒ سبز کونپل پر
تمہارے بوسئہ لب سے گلاب جاگے ہیں
(سو وہ گلاب تو کونپل سے کٹ بھی سکتے ہیں)
رہے وہ خواب جو آنکھوں کے آبگینوں میں
دھنک کے رنگ لیے ڈولتے سے رہتے ہیں
(سو ایسے خواب تو آکر پلٹ بھی سکتے ہیں)